حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ کے سرپرست آیت اللہ علی رضا اعرافی نے نوروز اور قرآن کی بہار یعنی ماہ مبارک رمضان کے موقع پر ایک پیغام جاری کیا ہے۔ ان کے پیغام کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
بسمالله الرحمن الرحیم
شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان
فطرت کی بہار یعنی نوروز اور عبادت کی بہار یعنی رمضان المبارک کے مقدس مہینہ کی امتِ مسلمہ اور ملت ایران اور تمام الہی امانتوں کے علمبرداروں، مبلغین اور جہادِ تبیین کا فریضہ انجام دینے والوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دلوں کی بہار یعنی رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اور فطرت کی بہار یعنی نوروز کی آمد اپنے وجود، ہدف اور ذمہ داریوں پر بیشتر توجہ کرنے کی بہترین فرصت ہے۔ اس فرصت کو مدنظر رکھتے ہوئے تبریک، ادب و احترام کے ساتھ ذیل میں چند نکات پیش کیے جاتے ہیں:
پہلا نکتہ: موسم بہار کا سب سے اہم پیغام زمین کی گردش میں الاہی تجلیوں کا ظہور اور پودوں اور پھولوں کی رشد و نشوونما ہے۔ یہ سب خدا اور توحید کی نشانیاں شمار ہوتی ہیں۔
اسی طرح ماہِ رمضان المبارک جو کہ خدا کا مہینہ ہے اور خلقِ خدا کا بھی مہینہ ہے، یہ مہینہ قرآن کی بہار ہے اور غریبوں اور محتاجوں کی بھی بہار ہے اور یہ مہینہ فرصتوں اور مواقع سے لبریز مہینہ ہے۔ بالخصوص اوقاتِ سحر و افطار میں منقول اور مقبول دعاؤں اور مناجات، نماز و روزہ وغیرہ کے ساتھ ملکوت کی جانب پرواز کی بہترین فرصت ہے۔
دوسرا نکتہ: حوزہ علمیہ نے ان گذشتہ سالوں میں سابقہ مسئولین کی کوششوں اور زحمات اور سلفِ صالح، مراجع عظام اور بزرگ علماء کرام کے اعلیٰ افکار سے الہام لیتے ہوئے حضرت امام خمینی (رہ) اور مقام معظم رہبری کے بلند مرتبہ افکار و رہنمائی سے تعلیم و تربیت کے میدان میں مختلف منصوبے تشکیل دئے اور تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ ان درجنوں منصوبوں اور امور کے پیچھے حوزہ علمیہ کا استقلال و عزت و سربلندی کا خیال، مفید و متناسب تعلیمی پروگرامز میں وسعت و تنوع، ہمیشہ اعلی ہدف کا حصول، حوزاتِ علمیہ میں تعلیمی و تربیتی امور میں سابقہ اصیل روایات کا تحفظ، علومِ انسانی اور علومِ اسلامی کو جدید طور کے مطابق پیش کرنا، تعلیم و تبلیغِ دین میں مشغول افراد کے معیشتی مسائل کی تا حدالامکان رسیدگی اور ان کا راہِ حل، حوزہ اور معاشرہ کے درمیان بہترین روابط کی بحالی، حوزہ میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اداری امور میں تیزی اور طلاب کے وقت کی اہمیت اور اس کا خیال رکھنا، انقلابِ اسلامی کی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے ہدف کی تشخیص، مختلف اداروں سے روابط اور مشترکہ پروگرامز کا اجراء، نظامِ اسلامی کے ساتھ منظم تعامل اور رابطہ اور اسے مضبوط کرنا اور اس کی ضروریات کا جواب دینا، بین الاقوامی روابط اور سرگرمیوں پر تاکید، حوزاتِ علمیہ، ثقافتی اور مذہبی اداروں میں ہم آہنگی اور بین ادارہ جاتی تعامل، علمائے بلاد اور علمائے کرام اور صوبائی منتظمین پر اعتماد اور صوبوں کے اختیارات میں اضافے اور فروغ کے لیے کوششیں، حوزہ میں جہادی اور انقلابی جذبے کا فروغ، تبلیغی سسٹم میں مضبوطی اور جہادِ تبیین کی حقیقی اور عملی کوشش اور مذہبی اور متدین افراد کی حمایت کے ساتھ اس عوامی ادارے کے مالی امور کو مستحکم کرنے سمیت وہ اہم اصول اور پالیسیاں ہیں جن پر تاکید کی گئی ہے۔
تیسرا نکتہ: حوزہ علمیہ کو اپنی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر بہت سے اندیشوں اور امیدوں کا سامنا ہے جو کہ ہمارے مدنظر ہونا چاہیے اور وہ حوزہ جس نے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے جہاد اور اجتہاد پر انحصار کرتا آ رہا ہے اور اپنی عظمت و بلندیوں پرکھڑا ہے اور خدا کے فضل و کرم سے 11 آبان 1402 شمسی (مطابق با 2 نومبر 2023ء) کو حوزہ علمیہ قم کے احیاء کی 100 ویں سالگرہ کی مناسبت سے اور اس کے بانی آیت اللہ اعظمی حائری کی شخصیت کی تعظیم کے لیے ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔
اس کانفرنس میں حوزہ علمیہ کی سو سال سے انجام شدہ فعالیتوں، کامیابیوں اور سرگرمیوں خاص طور پر انقلاب اسلامی کے 50 سالوں میں حاصل کامیابیوں کو پیش کیا جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اس کانفرنس میں مضامین کا ایک سلسلہ پیش کریں گے اور سپریم لیڈر اور سپریم لیڈر کے پیغامات سے مستفید ہوں گے۔
حوزہ علمیہ کے تعلیمی و تربیتی میدان کی امیدیں نوجوانوں، ممتاز و فاضل طلباء، قابل قدر اساتید، قابل محققین، انسانی وسائل کے بہت بڑے سرمائے، اس شعبے میں علوم و فنون کا دائرہ کار، عظیم روحانی، اخلاقی اور معنوی صلاحیتیں وغیرہ اس کے سرمایہ اور معاون ہیں۔ دوسری طرف ہماری امید یہ ہے کہ ہم اپنی مقامی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات کو پوری دنیا تک پہنچائیں۔ اسی طرح ہماری امید اچھے ذوق اور ہنر کے حامل ان خواہران و برادران طلاب سے بھی ہے جو اس حوزہ اور نظامِ روحانیت کے مستقبل کے معمار ہیں۔
نیز جامعۃ المصطفی العالمیہ اور بین الاقوامی اداروں کے مؤثر کردار اور اس کے ساتھ ساتھ حوزہ علمیہ خواہران میں دینی تعلیمات کی توسیع بھی ایک اور روشن اور امید افزا نقاط میں سےہے۔
چوتھا نکتہ: نئے سال اور نئی صدی کے آغاز میں اور حالات و واقعات کی کشمکش میں ہمارا اور آپ کا فریضہ انتہائی سنگین ہے۔ ایک طرف، ہم بڑے پیمانے پر اور مختلف ثقافتی حملوں کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمیں دشمن کی جانب سے انتہائی پیچیدہ اور دین و ایمان کو ہدف بنائے گئے حملوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف کرونا کی وبا نے حوزہ، یونیورسٹی اور علمی اور تعلیمی نظام کو بہت نقصان پہنچایا تو دوسری طرف ہمیں معاشرے کے مسائل اور لوگوں کے اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس صورت حال میں ہمیں اپنی اصل روایات کی طرف لوٹنا چاہیے اور حوزہ کے مستقبل کے لیے مفید نکات منجملہ علومِ اسلامی اور حوزوی کا استحکام، فضائل اخلاقی و معنوی پر تاکید، معاشرتی اخلاقیات کو مضبوط بنانا، عوام پر اعتماد اور لوگوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات کی ضرورت، تمام خطوں اور میدانوں اور تبلیغی و کردار سازی کے پلیٹ فارمز میں مسجد، منبر اور محراب کے بلند مقام کو خیال رکھتے ہوئے تبلیغ کا بہترین ذریعہ قرار دینا اور اس کی حفاظت کرنا، روحانیت اور حوزہ کو لوگوں کی معاش، علم اور ثقافت کے حوالے سے حساس اور ذمہ دار ہونے کو یقینی بنانا، ثقافتی وابستگیوں پر توجہ، تعلیمی روایات اور دین اور بنیادی علوم کو اجتہادی، عقلی اورحکمی طور پر جاری رکھنا، سنتوں اور روایات کا تحفظ، اپنے اسلاف اور اپنے پیشروؤں کے اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت پر تاکید، اپنے حوزوی پروگرامز میں اصالت اور عصری، روایت پسندی اور جدت پسندی وغیرہ کو مدنظر رکھنا، تبلیغِ دین اور جہادِ تبیین کے لئے ہنر اور مہارت کے ساتھ ذوق اور سلیقہ، حکمت و دانش پر توجہ مرکوز رکھنا، حوزہ میں عالمی اور بین الاقوامی اور تہذیبی نقطہ نظر اور اسٹریٹجک مطالعہ اور دور اندیشی پر مبنی مسائل کو نظرانداز نہ کرنا، اسلامی نظام اور مقاومتی محاذ کو تحفظ کو اصلِ اسلامی قرار دینے سمیت مختلف نکات پر توجہ دینی چاہئے۔
آخر میں، رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی اور مراجع عظامِ تقلید کی حمایت اور رہنمائیوں پر ان کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے تمام علمائے کرام، فضلاء، دانشوروں، مدیر حضرات اور علاقائی مراکز کے معزز منتظمین اور حوزہ علمیہ کی سپریم کونسل سمیت خواہران و برادران طلاب اور تمام اداروں کی زحمات اور کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
امید ہے کہ ہم سب مل کر دین و اسلام کے اس عظیم مشن کی تکمیل کے لیے قدم بڑھائیں گے اور اپنے کندھوں پر موجود ذمہ داری کو انتہائی خوش اسلابی سے نبھائیں گے۔
میں انبیاء اور امام معصومین علیہم السلام، بالخصوص خاتم النبیین (ص)، شہداء کرام اور امام شہیدان (رہ) اور بزرگانِ سلف صالح کی تابناک روحوں پر سلام بھیجتا ہوں اور خداوندِ متعال سے الہی مشن کے تمام مشعل برداروں کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔
علی رضا اعرافی
سرپرست حوزہ علمیہ